
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ریاست تلنگانہ میں گورنمنٹ اسکولوں کی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ گروکل اسکولوں کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ گروکولس کے ہاسٹل میں زیر تعلیم طلبہ حال ہی میں فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے شدید بیمار ہو گئے تھے۔
دوسری جانب کچھ ہاسٹلوں میں اگر گروکلوں کی حالت ایسی ہے تو سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ اسکول ہاسٹل میں چوہوں نے طلبا کو کاٹا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ کچھ سکول پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔ اگر کچھ اسکولوں میں طلباء نہیں ہیں، تو دوسرے اسکولوں میں اساتذہ نہیں ہیں۔
آپ نے وہ کہاوت تو سنی ہو گی ۔ ایک انار 100 بیمار ۔ لیکن ضلع نارائن پیٹ کے مگنور منڈل کے تحت منڈی پلی گاؤں کے پرائمری اسکول میں اایک ٹیچر اور 180 طلباء ہیں۔اور ایک ٹیچر ہی تمام 7 کلاسوں میں درس اور تدریس کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس اسکول میں پہلے تین اساتذہ تھے جبکہ دو کا ٹرانسفر ہو گیا ۔ تاہم ابھی تک ان کے عہدوں پر نئے افراد کی تقرری نہیں کی گئی۔
ایک گورنمنٹ اسکول ایک ٹیچر، کے رحم وکرم پر ہے۔ اور ایک ٹیچر 180 طلبا کو کیسے پڑھا سکتا ہے۔ جب کہ ایک کلاس میں 25 بچوں کے لئے ایک ٹیچر کا ہونا لازمی ہے۔ اس گورنمنٹ اسکول میں 180 بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اس طرح غریب طلبا اورگورنمنٹ اسکولس کے طلبا کس طرح پرائیوٹ اور کارپوریٹ اسکولس کا مقابلہ کرسکیں گے۔ اب سوال اٹھ رہا ہےکہ رائیٹ ٹو ایجوکیشن یعنی تعلیم حاصل کرنے کا حق صرف ایک نعرہ ہے۔ حکومت تلنگانہ، محکمہ تعلیم کو اس جانب جلد سے جلد توجہ دینے کی ضرورت ہے۔