
چیف منسٹر تلنگانہ و صدر بی آر ایس چندرشیکھرراؤ اور ان کے فرزند تارک راماراؤ گزشتہ چند دنوں سے اپنی انتخابی تقاریر میں بار بار یہ کہتے ہوئے آرہے ہیں کہ اگر غلطی سے کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو تلنگانہ میں دوبارہ فرقہ وارانہ فسادات اور کرفیو لگنا شروع ہو جائے گا۔ بی آر ایس لیڈروں کے بیانات اور تاریخ کو پلٹ کر دیکھیں گے تو یہ بات درست ثابت ہوگی۔ کیونکہ کانگریس کی تاریخ فسادات سے بھری پڑی ہے ۔
کانگریس کے 36 سالہ دور حکومت میں 2703 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں 554 افراد ہلاک ہوئے۔ اور4,796 لوگ زخمی ہوئے۔1978 سے 1985 تک ہر سال فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تھے ۔ کانگریس کے دور میں 113 دنوں سے زیادہ کے لئے 11 بار کرفیو لگایا گیا۔1999-2013 کے دوران شہر میں سات دہشت گرد حملے پیش آئے۔
2005 میں حیدرآباد کے ٹاسک فورس کے دفتر پر خودکش بم دھماکہ ، 2007 میں حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد میں دھماکے میں 9 افراد جاں بحق ہوئے۔2007 میں لمبینی پارک اور گوکل چاٹ جڑواں دھماکوں میں 43 افراد ہلاک ہوئے تھے۔2013 میں دلسکھ نگر کے جڑواں دھماکوں میں 17 لوگ مارے گئے۔
لیکن تلنگانہ کی تشکیل کے بعد نئی ریاست میں بی آرایس اقتدار میں آنے کے بعد حیدرآباد میں 2014 سے 2023 تک گزشتہ دس سالوں میں چیف منسٹر چندرشیکھرراو کی قیادت میں ایک بھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ یہی کانگریس اور بی آرایس کی حکمرانی میں فرق ہے۔